(ایجنسیز)
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ان مصبرین کا ایک گروپ جس میں تنظیم ویمنز ایڈ شامل ہے کہتا ہے کہ موجودہ قوانین مار پٹائی جیسے مخصوص واقعات کو ہی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین کنٹرول اور اثرورسوخ کو نظر انداز کرتے ہیں جو کہ گھریلو تشدد کا محور ہوتا ہے۔ برطانوی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے واقعات کی پولیس رپورٹوں کا جائزہ لے کر اس معاملے کو زیرِ غور لایا جائے گا۔ ویمنز ایڈ، سارا چارلٹن فائونڈیشن اور پالاڈن کے ایک گروپ نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ جابرانہ رویے اور نفسیاتی طور پر پُرتشدد برتائو کو مجرمانہ فعل قرار دیا جائے تا کہ اسے ثابت کر کے طویل عرصے تک ایسے ماحول میں رہنے والوں کی مدد کی جا سکے۔ برطانوی وزارتِ داخلہ کی گھریلو تشدد کی تعریف میں جابرانہ رویے کے تحت حد سے زیادہ حسد، کسی کو اپنے خاندان والوں یا گھر والوں سے ملنے سے روکنا یا پھر
کسی کے لباس پر اپنی مرضی عائد کرنا شامل ہے تاہم اسے مجرمانہ فعل قرار نہیں دیا گیا ہے۔ مبصرین کے اس گروپ نے گھریلو تشدد کے 258 متاثرین کا دسمبر 2013ء اور گزشتہ ماہ کے دوران سروے کیا تھا جس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ 88 فیصد متاثرین سمجھتے ہیں کہ عدالتی نظام نفسیاتی تشدد کو جرم خیال نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ سروے میں شریک 94 فیصد افراد نے کہا کہ نفسیاتی تشدد جسمانی تشدد سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ویمنز ایڈ کی چیف ایگزیکیٹیو پولی نیٹ کا کہنا تھا کہ ان نتائج سے یہی بات واضح ہوتی ہے جو ہمارے ارکان ہمیں بہت عرصے سے بتا رہے ہیں کہ عدالتی نظام جسمانی تشدد کے مخصوص واقعات کو ہی مانتا ہے اور قریبی رشتوں میں نفسیاتی تشدد پر غور نہیں کرتا۔ اس وقت ہر ہفتے دو خواتین اپنے ساتھی یا گزشتہ ساتھی کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں اور ان ہلاکتوں کو روکنے میں اگلا اہم قدم یہ ہے کہ عدالتی نظام جابرانہ اور پرتشدد رویے کو بھی نظر انداز نہ کرے۔